تفسير ابن كثير



سورۃ القلم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ[26] بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ[27] قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ[28] قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ[29] فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ[30] قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ[31] عَسَى رَبُّنَا أَنْ يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ[32] كَذَلِكَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ[33]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس جب انھوں نے اسے دیکھا تو انھوں نے کہا بلاشبہ ہم یقینا راستہ بھولے ہوئے ہیں۔ [26] بلکہ ہم بے نصیب ہیں۔ [27] ان میں سے بہتر نے کہا کیا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے۔ [28] انھوں نے کہا ہمارا رب پاک ہے، بلاشبہ ہم ہی ظالم تھے۔ [29] پھر ان کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوا،آپس میں ملامت کرتے تھے۔ [30] انھوں نے کہا ہائے ہماری ہلاکت! یقینا ہم ہی حد سے بڑھے ہوئے تھے۔ [31] امید ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس کے بدلے میں اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔یقینا (اب) ہم اپنے رب ہی کی طرف راغب ہونے والے ہیں۔ [32] اسی طرح (ہوتا) ہے عذاب۔ اور یقینا آخرت کا عذاب کہیں بڑا ہے، کاش ! وہ جانتے ہوتے۔ [33]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے [26] نہیں نہیں بلکہ ہماری قسمت پھوٹ گئی [27] ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا کہ میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے؟ [28] تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ﻇالم تھے [29] پھر وه ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے آپس میں ملامت کرنے لگے [30] کہنے لگے ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے [31] کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے دے ہم تو اب اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں [32] یوں ہی آفت آتی ہے اور آخرت کی آفت بہت بڑی ہے۔ کاش انہیں سمجھ ہوتی [33]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جب باغ کو دیکھا تو (ویران) کہنے لگے کہ ہم رستہ بھول گئے ہیں [26] نہیں بلکہ ہم (برگشتہ نصیب) بےنصیب ہیں [27] ایک جو اُن میں فرزانہ تھا بولا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟ [28] (تب) وہ کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار پاک ہے بےشک ہم ہی قصوروار تھے [29] پھر لگے ایک دوسرے کو رو در رو ملامت کرنے [30] کہنے لگے ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے [31] امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف سے رجوع لاتے ہیں [32] (دیکھو) عذاب یوں ہوتا ہے۔ اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش! یہ لوگ جانتے ہوتے [33]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 26، 27، 28، 29، 30، 31، 32، 33،

باب

لیکن جب وہاں پہنچے تو ہکا بکا رہ گئے، کہ لہلہاتا ہوا ہرا بھرا باغ میوؤں سے لدے ہوئے درخت اور پکے ہوئے پھل سب غارت اور برباد ہو چکے ہیں سارے باغ میں آندھی پھر گئی ہے اور کل باغ میوؤں سمیت جل کر کوئلہ ہو گیا ہے، کوئی پھل نصف دام کا بھی نہیں رہا، ساری تروتازگی پژمردگی سے بدل گئی ہے، باغ سارا کا سارا جل کر راکھ ہو گیا ہے درختوں کے کالے کالے ڈراؤنے ٹنڈ کھڑے ہوئے ہیں، پہلے تو سمجھے کہ ہم راہ بھول گئے کسی اور باغ میں چلے آئے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا طریقہ کار غلط تھا جس کا یہ نتیجہ ہے۔ پھر بغور دیکھنے سے جب یقین ہو گیا کہ باغ تو ہمارا ہی ہے تب سمجھ گئے اور کہنے لگے، ہے تو یہی لیکن ہم بدقسمت ہیں، ہمارے نصیب میں ہی اس کا پھل اور فائدہ نہیں، ان سب میں جو عدل و انصاف والا اور بھلائی اور بہتری والا تھا وہ بول پڑا کہ دیکھو میں تو پہلے ہی تم سے کہتا تھا کہ تم ان شاء اللہ کیوں نہیں کہتے۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کے زمانہ میں سبحان اللہ کہنا بھی ان شاء اللہ کہنے کے قائم مقام تھا۔
9696

امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے معنی ہی ان شاء اللہ کہنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بہتر شخص نے ان سے کہا کہ دیکھو میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم کیوں اللہ کی پاکیزگی اور اس کی حمد و ثناء نہیں کرتے؟ یہ سن کر اب وہ کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے، بیشک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اب اطاعت بجا لائے جبکہ عذاب پہنچ چکا، اب اپنی تقصیر کو مانا جب سزا دے دی گئی، اب تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے بہت ہی برا کیا کہ مسکینوں کا حق مارنا چاہا اور اللہ کی فرمانبرداری سے رک گئے، پھر سب نے کہا کہ کوئی شک نہیں ہماری سرکشی حد سے بڑھ گئی اسی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا، پھر کہتے ہیں شاید ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے یعنی دنیا میں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آخرت کے خیال سے انہوں نے یہ کہا ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

بعض سلف کا قول ہے کہ یہ واقعہ اہل یمن کا ہے، سعید بن جیبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ لوگ ضروان کے رہنے والے تھے جو صنعاء سے چھ میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے اور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اہل حبشہ تھے۔ مذہباً اہل کتاب تھے یہ باغ انہیں ان کے باپ کے ورثے میں ملا تھا اس کا یہ دستور تھا کہ باغ کی پیداوار میں سے باغ کا خرچ نکال کر اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے سال بھر کا خرچ رکھ کر باقی نفع اللہ کے نام صدقہ کر دیتا تھا اس کے انتقال کے بعد ان بچوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ ہمارا باپ تو بے وقوف تھا جو اتنی بڑی رقم ہر سال ادھر ادھر دے دیتا تھا ہم ان فقیروں کو اگر نہ دیں اور اپنا مال باقاعدہ سنبھالیں تو بہت جلد دولت مند بن جائیں یہ ارادہ انہوں نے پختہ کر لیا تو ان پر وہ عذاب آیا جس نے اصل مال بھی تباہ کر دیا اور بالکل خالی ہاتھ رہ گئے۔

پھر فرماتا ہے ” جو شخص بھی اللہ کے حکموں کے خلاف کرے اور اللہ کی نعمتوں میں بخل کرے اور مسکینوں محتاجوں کا حق ادا نہ کرے اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرے اس پر اسی طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں اور یہ تو دنیوی عذاب ہیں آخرت کے عذاب تو ابھی باقی ہیں جو سخت تر اور بدتر ہیں “۔

بیہقی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت کھیتی کاٹنے اور باغ کے پھل اتارنے سے منع فرما دیا ہے ۔ [السنن الکبری للبیھقی:9/298-290:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏
9697



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.